گئی۔برتاوے تھالیاں بھر بھر کر لوگوں کو بانٹتے مگر دیگ جوں کی توں بھری تھی۔ حاجت مندوں میں ایک فقیر بھی تھا۔ وہ خالی ہاتھ آتا اور سارا دن کھڑا تماشا دیکھتا رہتا۔ برتاوے کہتے، میاں تو کیوں خالی ہاتھ کھڑآ ہے، برتن لا اور چاول لے لے۔ وہ کہتا، میں حاجت مند نہیں ہوں۔اس بات پر برتاوے بہت حیران ہوتے کہ کھڑا بھی رہتا ہے بٹر بٹر دیکھتا بھی رہتا ہے مگر کھاتا پیتا نہیں ہے۔ انھوں نے مست بابا سے بات کی۔ مست بابا نے کہا، اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ وہ فقیر کو مست بابا کے پاس لے گئے۔ مست بابا نے پوچھا، میاں کیا بات ہے کہ تو سارا دن دیگ کے سامنے کھڑا رہتا ہے لیکن دیگ کے چاول نہیں کھاتا۔فقیر بولامیں یہاں چاول کھانے نہیں آتا اور نہ ہی اس دیگ کو دیکھنے آتا ہوں، جو سدا بھری رہتی ہوں۔ مست بابا نے پوچھا، پھر تو یہاں آتا کیوں ہے؟ فقیر بولا میں تو تیری زیارت کرنے آتا ہوں، تو جو اس شہر کا رب بنا ہوا ہے اور لوگوں میں رزق تقسیم کر رہا ہے۔مست بابا کا چہرہ بھیانک ہو گیا۔ وہ چلا کر بولا: ’’ دیگ کو اْنڈیل دو۔ چولہے پر پانی ڈال دو۔یہ کہہ کر مست بابا نے اپنی لاٹھی اْٹھائی اور شہر سے باہر نکل گیا۔پاکستانی دیگ،میرے کئی دوست کہتے ہیں، مفتی یہ کہانی تو نے خود گھڑی ہے۔ یہ تو پاکستان کی کہانی ہے۔ لوگ اس دیگ کو کھا رہے ہیں۔ وہ چلا جاتا ہے تو دوسرا گروپ آ جاتا ہےکھاتا ہے، وہ چلا جاتا ہے تو دوسرا گروپ آ جاتا ہے۔ اس کے جیالے دیگ پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن یہ دیگ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ دیگ مست نے چڑھائی تھی اور یہ خود ربِ جلیل نے چڑھائی ہے۔
More Stories
Maryam Nawaz says they would prefer fresh elections over burdening people
Pak Army soldier martyred in South Waziristan IED blast
PM Shehbaz Sharif promotes 16 officers to BPS-22